Saturday, 7 May 2016

اے خاصہءِ خاصان رسلؐ وقت دعا ہے،
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے۔
-
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے،
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے،
-
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے،
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے۔
-
جو دین کہ ہمدرد بنی نوع بشر تھا،
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے۔
-
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں،
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے۔
-
کر حق سے دعا امت مرحوم کے حق میں،
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے۔
-
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے،
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے۔
-
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی،
ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے۔
-
وہ دین، ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں،
اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے۔
-
جو دین کہ تھا شرک سے عالم کا نگہباں،
اب اس کا نگہبان اگر ہے تو خدا ہے۔
-
جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کسرٰی،
خود آج وہ مہمان سراۓ فقرا ہے۔
-
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے،
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے۔
-
جس دین کا تھا فقر بھی اکسیر ، غنا بھی،
اس دین میں اب فقر ہے باقی نہ غنا ہے۔
-
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب،
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے۔
-
ہے دین تیرا اب بھی وہی چشمہ صافی،
دیں داروں میں پر آب ہے باقی نہ صفا ہے۔
-
عالم ہے سو بےعقل ہے، جاہل ہے سو وحشی،
منعم ہے سو مغرور ہے ، مفلس سو گدا ہے۔
-
یاں راگ ہے دن رات و داں رنگِ شب و روز،
یہ مجلسِ اعیاں ہے وہ بزمِ شرفا ہے۔
-
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں،
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے۔
-
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے،
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے۔
-
ہے دین کی دولت سے بہا علم سے رونق،
بے دولت و علم اس میں نہ رونق نہ بہا ہے۔
-
شاہد ہے اگر دین تو علم اس کا ہے زیور،
زیور ہے اگر علم تو مال سے کی جلا ہے۔
-
جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت،
اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے۔
-
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی،
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے۔
-
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر،
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے۔
-
جس قصر کا تھا سر بفلک گنبدِ اقبال،
ادبار کی اب گونج رہی اس میں صدا ہے۔
-
بیڑا تھا نہ جو بادِ مخالف سے خبردار،
جو چلتی ہے اب چلتی خلاف اس کے ہوا ہے۔
-
وہ روشنیِ بام و درِ کشورِ اسلام،
یاد آج تلک جس کی زمانے کو ضیا ہے۔
-
روشن نظر آتا نہیں واں کوئی چراغ آج،
بجھنے کو ہے اب گر کوئی بجھنے سے بچا ہے۔
-
عشرت کدے آباد تھے جس قوم کے ہرسو،
اس قوم کا ایک ایک گھر اب بزمِ عزا ہے۔
-
چاوش تھے للکارتے جن رہ گزروں میں،
دن رات بلند ان میں فقیروں کی صدا ہے۔
-
وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی،
وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے۔
-
اے چشمہ رحمت بابی انت و امی،
دنیا پہ تیرا لطف صدا عام رہا ہے۔
-
امت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن،
دل دادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے۔
-
ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے،
وہ تیری محبت تری عترت کی ولا ہے۔
-
ہر چپقلش دہر مخالف میں تیرا نام،
ہتھیار جوانوں کا ہے، پیروں کا عصا ہے،
-
جو خاک تیرے در پہ ہے جاروب سے اڑتی،
وہ خاک ہمارے لئے داروے شفا ہے۔
-
جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف،
اب تک وہی قبلہ تری امت کا رہا ہے۔
-
جس ملک نے پائی تری ہجرت سے سعادت،
کعبے سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے۔
-
کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا،
اب تک تو ترے نام پہ اک ایک فدا ہے۔
-
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے خواہاں،
پر فکر ترے دین کی عزت کی صدا ہے۔
-
ہاں حالیءِ گستاخ نہ بڑھ حدِ ادب سے،
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے۔
-
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب،
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے۔
-
مولانا الطاف حسین حالی